Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

ظلم کروگے تو ظلم ہی ہوگا

ماہنامہ عبقری - اکتوبر2012

 

ظلم کا بدلہ ظلم ہی ہوتا ہے
(غلام مرتضیٰ پنوں عاقل)
حکیم صاحب! جب ہم کسی کو نقصان دیتے ہیں حقیقت میں ہم اپنے آپ کو نقصان دیتے ہیں‘ جسے نقصان دیتے ہیں وہ تو بہرحال گزر جاتا ہے لیکن ہمارے لیے جو ہونے جارہا ہوتا ہے ہمیں خبر نہیں ہوتی۔ ایک ایسا ہی اقعہ ایک پولیس افسر نے مجھے بتایا۔ ایک اے ایس آئی جو شہر میں قریب تھانے میں اس کی ڈیوٹی ہے۔ کہہ رہا تھا کہ میں کافی غرور میں ہوتا تھا مجھے قدرت کے فیصلوں کی پرواہ ہی نہیں رہتی تھی کہ میرے کارنامے درج ہورہے ہیں اور میرے لیے وہ کچھ ہونے جارہا ہے جس سے میں جان نہیں چھڑا پاؤں گا۔ میں نے ایک دن ایس ایچ او کے کہنے پر ایک غریب پر منشیات کا کیس لگا دیا‘ اس پر ایک کلوہیروئن اور افیم کا پرچہ کردیا۔ وہ بہت ہی غریب آدمی تھا میری منتیں کررہا تھا کہ ایسا نہ کرو‘ لیکن میں نے اس کی ایک نہیں سنی۔ وہ آہیں بھرتا رہا اور پھر ٹھنڈی آہ بھی اس کی ایسی نکلی کہ بس کیا بتاؤں…… میرے دل میں کرنٹ لگ گیا اور ایسے معلوم ہوا کہ خدا نے اس کی درخواست کو منظور کرلیا ہے۔ بہرحال وہ جیسے تیسے نکل گیا اور اس کیس سے خداوند کریم نے اسے رہا کردیا اور ہم نے اس سے کافی پیسے بٹورے۔ چند دن ہی گزرے تھے میں بھی اس قسم کے کیس میں پھنس گیا وہ بھی ناحق کیس جیسے میں نے اس کے ساتھ کیا تھا ویسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا‘ وہی قلم میرے اوپر بھی لگے‘ وہی ایک کلوہیروئن اور افیم…… میں ڈیوٹی سے فارغ ہوا‘ ضمانت کروائی۔ میں نے رو رو کر خدا سے معافی مانگی۔ ایک دن اچانک خیال آیا کہ اس شخص سے معافی مانگ لی جائے۔ میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کے پاس گیا اسے منوایا اس نے معاف کیا۔ چند روز بعد میں بھی اس کیس سے بری ہوگیا۔ آج میں پانچ وقت کا نمازی ہوں اور دوسروں کو بھی ہروقت روکتا ہوں کہ کسی کے ساتھ ظلم نہ کرو۔
باادب بانصیب
(محمدآصف)
بندہ بازار گیا کچھ کاپی پنسلیں خریدنے‘ میں جس دکان پر گیا وہ ایک ہندو بنیے کی دکان ہے‘ اس کی عمر لگ بھگ  65/60 سال کے قریب ہوگی۔ سلام دعا کے بعد بندہ نے اس بنیے دکاندار سے کہا کہ آپ کا ایک بیٹا ہیرانند ہے جوکہ اب دل کا ڈاکٹر ہے۔ وہ میرا کلاس فیلو رہا ہے تو وہ ہندو بنیا بہت خوش ہوا‘ پھر میں نے ان سے ایک بات عرض کی کہ جب میں چھوٹا تھا اور آپ کی دکان سے قلم کاپی وغیرہ لینے آتا تھا تو تم اپنے ڈاکٹر بیٹے ہیرانند کو بہت ڈانٹتے تھے اور سخت سست کہتے تھے لیکن وہ گردن جھکائے خاموشی سے آپ کی ساری باتیں سنتا رہتا تھا اور کبھی اف تک نہ کی اور اس کا صلہ یہ ملا کہ اللہ نے اسے ڈاکٹر بنادیا ہے تو اس ہندو بنیے نے کہا کہ ہاں تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے باادب بانصیب اور بے ادب بے نصیب… اور اگلی بات جو اس بنیے نے کہی وہ بڑی عجیب تھی اور سوچنے والی کہنے لگا میں اپنے باپ کے ساتھ ہوتا تھا تو میرا باپ مجھے برا بھلا کہتا تھا تو میں ان سے کہتا تھا ’’اباجی! یہ بات اس طرح نہیں ہے‘ اس طرح ہے‘‘ تو ان کو یہ چیز اچھی نہیں لگتی تھی اور وہ ناراض ہوتے تھے تو اس کی سزا مجھے قدرت نے یہ دی ہے کہ جو میرا چھوٹا بیٹا ہے وہ بہت گستاخ ہے اور وہ مجھ سے بدلے لے رہا ہے میرے اس عمل کو جو میں  نے اپنے باپ سے روا رکھا اور کہا جیسی کرنی ویسی بھرنی……!
مختلف واقعات
عمرفاروق‘ لاہور
ایک گلی میں سے ایک بچہ گزرتا تھا ایک عورت اس سے بہت پیار کرتی تھی اس کو کبھی کچھ کھلاتی‘ کبھی کچھ کھلاتی‘ سکول جاتے اور واپسی پر اپنے گھر لے جاتی اور کھانے وغیرہ کھلاتی اب وہ بچہ کہنے لگا کہ آپ مجھ سے اتنا پیار کیوں کرتی ہیں۔ لوگ بھی برا سمجھنے لگے تو اس نے بتایا کہ تمہاری شکل میرے بیٹے سے ملتی ہے اس لیے میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں۔
٭ایک عورت بس میں سوار ہونے لگی تو کنڈیکٹر نے کہا مائی بس میں جگہ نہیں ہے… تو مائی نے کہا بیٹا اتنی بڑی بس میں جگہ نہیں ہے حالانکہ میں نے تمہیں پیٹ میں نو ماہ رکھا ہے تو آج میرے لیے تیرے پاس اتنی بڑی بس میں جگہ نہیں ہے۔ جب کنڈیکٹر نے دیکھا تو وہ اس کی اپنی ماں تھی۔
٭ ایک بیوہ عورت کو کچھ عرصہ سے پیٹ میں درد رہنے لگا‘ شروع میں اس نے زیادہ محسوس نہ کیا تو پھر ایک دن وہ ڈاکٹر کے پاس گئی تو ڈاکٹر نے کہا تجھے تو حمل ہے‘ اس نے کہا میرے خاوند کو فوت ہوئے کئی سال گزر گئے‘ مجھے کیسے حمل ہوسکتا ہے؟ تو ڈاکٹر نے کہا آپ کے ساتھ اور کون رہتا ہے اس نے کہا میں اور میرا بیٹا رہتے ہیں‘ ڈاکٹر نے پوچھا کہ کھانا وغیرہ کون بناتا ہے تو عورت نے کہا کھانا میں خود بناتی ہوں اور شام کو کبھی کبھی چائے میرا بیٹا بناتا ہے‘ ڈاکٹر نے کہا کہ تیرے پیٹ میں تیرے بیٹے کا بچہ ہے‘ عورت بہت ناراض ہوئی‘ ڈاکٹر نے کہا جو آج رات کو وہ چائے لے کر آئے تو اسے کسی بہانے سے گرا دینا اور اسے پتہ نہ چلنے دینا اور کہنا میں نے چائے پی لی ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا تو واقعی رات کو اس کا بیٹا اس کو بیہوش سمجھ کر اس کے پاس آیا تو جیسے ہی اس نے اسے ہاتھ لگایا اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
٭ ایک گھر میں ایک آدمی کی بیوی فوت ہوگئی اس کی ایک ہی نوجوان بیٹی تھی جس کو پیٹ میں شدید تکلیف ہوئی تو وہ ہمسائی کے ساتھ ہسپتال گئی تو ڈاکٹر نے بتایا اسے حمل ہے۔ اس کی ہمسائی نے کہا اس کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی حمل کہاں سے ہوگیا؟ تو بعد میں لڑکی نے خود بتایا  کہ یہ حمل میرے باپ سے ہے۔٭ لاہور کے ایک علاقے میں ایک گھر تھا‘ اس گھر کے سربراہ کی بیوی فوت ہوگئی اس کی ایک ہی نوجوان بیٹی تھی جس کو اس کا والد اکثر پکڑلیتا تھا اس لڑکی نے اپنے ہمسائیوں کو بتایا‘ ہمسائیوں نے کافی دفعہ برا بھلا کہا وہ باز نہیں آیا آخر ہمسائیوں نے اس لڑکی کے باپ کو گولی ماردی۔٭ ہمارے دوست نے ایک واقعہ سنایا میرے دوست کی شادی تھی ہم لوگ اس کے گاؤں میں گئے اور صبح کو بارات تھی اور شام کو بارات کی واپسی ہوئی اور ولیمے کی تیاری شروع کردی اور صبح کو ولیمہ تھا اسی میں رات گیارہ کا ٹائم ہوگیا گھر سے پیغام آیا کہ دولہا کو گھر بھیج دیں۔ کھانے کی تیاری گھر سے دور حویلی میں ہورہی تھی ہم چند دوست دولہا کو مذاق کرتے ہوئے گھر چھوڑنے چلے گئے اور جب گھر نزدیک آیا تو دولہے نے کہا کہ آپ لوگ واپس چلے جائیں میں تقاضے سے فارغ ہوکر گھر جاؤں گا گھر کے ساتھ جو کھیت تھے اس میں چلا گیا۔ ہم لوگ واپس آگئے۔ ہم لوگ حویلی واپس آگئے اور وہ کھیت میں چلا گیا۔ صبح گھر سے پیغام آیا کہ دولہا رات کو گھرنہیں آیا اور ماں باپ سمجھ رہے تھے کہ کمرے میں ہیں۔ ہم دوستوں نے بتایا کہ رات کو بارہ بجے ہم خود چھوڑ کرآئے ہیں اسی پریشانی میں دن کے بارہ بج گئے سب مہمان آگئے تھے اتنے میں لڑکی کے ماں باپ میں آگئے دولہا میاں کا کوئی پتہ نہیں اسی میں شام ہوگئی۔ دولہن کے ماں باپ نے دولہن کو کہا چلو گھر چلیں دولہے کا پتہ نہیں چل رہا۔ کہاں ہے تو دلہن نے جواب دیا جو مجھ کو لیکر آیا تھا میں اسی کے ساتھ گھر جاؤں گی اور آج تک دولہے کا پتہ نہیں چلا دلہن سسرال کے گھر بوڑھی ہوگئی مگر واپس نہیں گئی۔

 

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 263 reviews.